Orhan

Add To collaction

بھیگی پلکوں پر

پھوپھو جان! آئم سوری ،میں بہت شرمندہ ہوں اپنا انا کی خاطر میں نے نادانستگی میں خود کو بھی سزا دی ہے اور آپ لوگوں کو بھی رنج و تکلیف پہنچائی ہے جو وقت گزر گیا اس کا ازالہ تو ممکن نہیں ہے۔“ فاخر صباحت کے سامنے نگاہیں جھکائے شرمندگی سے کہہ رہا تھا۔
”لیکن وعدہ کرتا ہوں تازیست آپ کو میری طرف سے اب کوئی ایسی بات سننے کو نہیں ملے گی ،یہ میرا عہد ہے۔
”جو ہوا وہ ہم بھی بھلا کر یہاں آئے ہیں بیٹا!“ صباحت شفقت بھرے لہجے میں مخاطب ہوئی تھیں۔
”اور آپ بھی وہ سب بھلا کر نئی زندگی کی شروعات کریں ،میں جانتی ہوں جو کچھ ہوا وہ اچھے کیلئے ہی ہوا ہے ،اذیت بھری زندگی سے بچنے کا یہی طریقہ ہے کہ ایک دوسرے پر اعتماد و اعتبار کی ڈور کبھی نہ ٹوٹنے پائے فاخر! محبت کی بنیاد اعتماد پر رکھی جاتی ہے اور اعتماد جتنا گہرا ہوگا ،محبت اتنی ہی کامل ہوتی ہے۔


“ وہ نرمی سے کہہ رہی تھیں۔
”ہمیں تو خوشی اس بات کی ہے فاخر! ہمارا خاندان بکھرنے سے بچ گیا ہے وگرنہ حقیقت تو یہ ہے پہلے ہم عائزہ کے اس عمل کوبہت بیوقوفی سمجھ رہے تھے کہ کیوں اس نے تم کو راحیل کے بارے میں بتایا جس کے نتیجے میں یہ اتنی بڑی پرابلم کری ایٹ ہوئی ہے اور وہ یہی کہتی رہی اس سے جو لغزش ہوئی ہے اسے چھپا کر وہ آپ کو دھوکے میں رکھنا نہیں چاہتی یہ اس کی نیک نیتی اور خلوص کا ثمر ہے ،جو تم دور جا کر پھر اس کے بن گئے ہو۔
“ زینب نے تشکر بھرے انداز میں کہا۔
”بالکل صحیح کہہ رہی ہو زینی! میں تو رات دن یہی سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی کس طرح یہ سب فیاض اور اماں جان کو بتاؤں گی اور خاص طور پر فیاض کا رد عمل کیا ہوگا۔ وہ تو پہلے ہی خاصی خفگی کا اظہار کر چکے تھے اور پھر عائزہ سے اس حد تک ناراض تھے کہ اس کی شادی میں انہوں نے غیروں کی طرح شرکت کی تھی اور ابھی تک وہ عائزہ کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے۔
“ بولتے ہوئے ان کی آواز رند گئی تھی فاخر نے فوراً ہی ان کے شانوں پر بازو رکھتے ہوئے کہا۔
”ڈونٹ وری پھوپھو جان! آپ بالکل ریلیکس ہو جائیں انکل کو ساری بات میں سمجھا دوں گا ،فیاض انگل بے حد نائس ہیں وہ میری بات سمجھ جائیں گے ،آپ کو مزید پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔“
”تھینکس فاخر بیٹے! ٹھیک کہہ رہے ہیں آپ ،فیاض حقیقتاً بے حد فراخ دل ہیں وہ کسی کو بھی معاف کرنے میں دیر نہیں لگاتے ،آپ سے پہلے میں ان کو ہر بات بتانا چاہوں گی کیونکہ بیٹیاں اگر ایسی ڈگر پر چل پڑیں تو وہ ماں کی غفلت و ذمہ داری پر کاری ضرب ہے۔
”جیسے آپ کی مرضی پھوپھو جان! انکل سے پہلے آپ بات کلیئر کر لیں تو مجھے بات کرنے میں ایزی فیل ہوگا۔“ اس نے مسکراتے ہوئے کہا ویسے بھی اس کی نگاہیں بار بار دروازے کی طرف بھٹک رہی تھیں جہاں سے کچھ دیر قبل عائزہ آئی تھی ،نارمل انداز میں اسے سلام کرکے زینی کو زبردستی یہاں بٹھا کر کچن میں چلی گئی تھی جب سے اس کا دل و نظریں بے قرار تھیں۔
###
اس نے کھڑکی کے شیشے سے دیکھا تھا وہ دادی جان کی چوٹی باندھ رہی تھی،اس کے مخروطی ہاتھوں میں دادی کے بال سفید ریشم کی طرح لگ رہے تھے جن کو وہ بڑی محبت و نرمی سے بل دے رہی تھی وہ اس کام میں اس طرح منہمک تھی کہ چند فٹ کے فاصلے پر موجود کھڑکی سے دکھائی دیتے طغرل کو محسوس نہ کر سکی تھی جبکہ نگاہیں بند کئے دادی کو اس کی موجودگی کا احساس ہوا تو جھٹ انہوں نے آنکھیں کھولی تھیں اور عینک کے پیچھے سے ان کو گھورتی نگاہیں کچھ زیادہ واضح دکھائی دے رہی تھیں۔
اس نے عافیت اندر جانے میں ہی محسوس کی تھی اور بولتا ہوا آیا تھا۔
”واؤ دادی جان! آپ کے بال تو اب بھی بہت اچھے ہیں ،کون سا آئل استعمال کرتی ہیں آپ؟“ اس کو اچانک سامنے دیکھ کر اس نے ہڑبڑا کر شانوں پر دوپٹہ ڈالا تھا جبکہ وہ دادی کے قریب ہی بیٹھ گیا پری نے تیزی سے ان کی چٹیا کو آخری بل دے کر ہٹ جانا چاہا تھا تب ہی بایاں ہاتھ بڑھا کر اس نے اس کا ہاتھ تھام لیا تھا۔
”ارے بیٹا تیل ویل سب بناؤٹی باتیں ہیں ،کچھ نہیں ہوتا۔ یہ تو ہمارے خاندانی بال ہیں جو بغیر تیل شیمپو کے لمبے اور گھنے ہیں۔“ حسب عادت ان کو اپنی خاندانی شان و شوکت دہرانا پڑی جو ان کا محبوب ترین مشغلہ تھا وہ ان خوبیوں کو جتانا اپنی شان سمجھتی تھیں۔
”خاندانی بال… اومائی گاڈ۔“ وہ ہنسا۔
”خاندانی ناک تو سنی تھی دادی جان! یہ خاندانی بال کہاں سے آ گئے؟“ وہ ہنستے ہوئے کہہ رہا تھا اور مضبوطی سے اس کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھا ،پری بدحواسی سے کبھی اسے دیکھ رہی تھی اور کبھی دادی کو وہ پوری کوشش کر رہی تھی کسی طرح سے اس سے ہاتھ چھڑائے اور اتنا ہی ناکامی کا شکار ہو رہی تھی جبکہ اس کے چہرے پر روشن مسکراہٹ تھی سو وہ بظاہر دادی کی باتوں میں مگن تھا لیکن اندر ہی اندر وہ اس کی جدوجہد سے پوری طرح حظ اٹھا رہا تھا۔
”خاندانی لوگوں کی تو ہر بات ہی خاندانی ہوتی ہے بیٹا! خیر اب تو وہ زمانے ہی گئے جب گھر میں ملازم بھی نسل دیکھ کر رکھے جاتے تھے اب تو کیسا خاندان اور کیسا گھرانہ اچھے اچھے خاندانوں کی اولادیں چوڑے چماروں میں بیاہی جا رہی ہیں۔ خاندان نہیں آج کل تو پیسہ دیکھا جا رہا ہے چور لٹیرے رئیس کہلاتے ہیں اس دور میں۔“
”دادی جان! پرانے وقت کے جو لوگ تھے وہ خاندان برادری حسب و نسب پر اتنی سخت گرفت کیوں رکھتے تھے؟ کیا مطمئن ہونے کیلئے یہ کافی نہیں ہے ہم سب مسلمان ہیں ایک اللہ کو ماننے والے۔
”دیکھو بیٹا! بات کرتے وقت دین کو زیر بحث نہ لایا کرو ،آج جو کچھ ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے قتل ،ڈکیتیاں ،بھائی بھائی کا خون بہا رہا ہے چھوٹی چھوٹی معصوم بچیوں کی عصمتوں کو داغدار کیا جا رہا ہے ،یہ سب کون کر رہے ہیں؟ کیا یہ کرنے والے مسلمان نہیں ہیں؟“ پری کی آنکھوں میں ابھرتی نمی نے اسے ہاتھ چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا وہ پھرتی سے دادی کے سامنے ہو گئی تھی۔
دادی جو اس وقت جذباتی کیفیت میں تھیں طغرل کی اس حرکت کو نوٹ نہ کر سکی تھیں۔
”افسوس یہ سب مسلمان ہیں ،نام نہاد مسلمان… جن کے باپ دادا مسلمان تھے تو اس نسبت سے مسلمان کہلاتے ہیں ایسے لوگ اور یہیں سے برادری اور خاندانی تربیت کا فرق دکھائی دے جاتا ہے ،دین سے دوری تو شیطان سے قریب کر دیتی ہے پھر اچھائی و برائی کی تمیز کہا باقی رہتی ہے۔
“ دادی نے آف وائٹ کڑھائی والی چادر اوڑھتے ہوئے کہا۔
”جو آج کل لوگ کر رہے ہیں وہ مسلمان تو کیا انسان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں ،ایسے لوگوں کو سرعام جب تک عبرتناک سزائیں نہیں ملیں گی تب تک ایسا ہوتا رہے گا۔ دادی جان جس معاشرے سے سزا کا تصور بھی ختم کر دیا جائے اس معاشرے میں ایسے بھیانک جرائم پیدا ہوتے ہیں۔“
”نامعلوم کب تک اس بے راہ روی و بے دینی کا اندھیرا چھایا رہے گا؟ کب لوگ اپنے آپ سے متعارف ہوں گے اور کب سکون کا سورج طلوع ہو گا کہ اب معاشرے کے چلن نے زندہ رہنے کی امنگ چھین لی ہے۔
”دادی جان! سر میں درد ہو رہا ہے بہت۔“ وہ سر پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ وہ پریشانی سے گویا ہوئیں۔
”کب سے ہو رہا ہے درد… کوئی گولی کھائی یا یونہی باتیں بنانے میں بیٹھ گئے تھے؟“
”گولی تو جب کھاؤں گا جب چائے ملے گی اور گھر میں کوئی بھی نہیں ہے چائے کس سے بنواؤں؟“ لہجے میں خاصی بے چارگی تھی۔
”عائزہ ،عادلہ ،صباحت کے ساتھ زینی کے گھر گئی ہیں ،رات کو کھانے کے بعد ہی آئیں گی۔
میں ابھی ملازمہ سے کہہ کر چائے بنواتی ہوں۔“ انہوں نے ایک نگاہ ڈریسنگ ٹیبل پر سامان ترتیب سے رکھتی پری پر ڈالتے ہوئے گویا اس کو تسلی دی تھی۔
وہ بھی کان دبائے دادی کا سرمہ ،عطر اور دیگر چیزیں صاف کرکے رکھتی جا رہی تھی ،اس کے کہنے کا مطلب وہ بخوبی سمجھ رہی تھی۔
”یہ آپ کی لاڈلی مہارانی صاحبہ کیا چائے بنانا بھول گئی ہیں جو میں ملازمہ کے ہاتھوں کی بنی بدمزہ چائے پیوں دادی جان؟“ پری کی بے اعتنائی و دادی کی بے پروائی نے اس کو سلگا ڈالا تھا۔
”ارے تو گھنی عورتوں کی طرح بات گھوما پھر کر کیوں کر رہے ہو ،صاف کہہ دو پری کے ہاتھوں کی بنی چائے پیو گے۔“ وہ اسے گھورتی ہوئی گویا ہوئیں پھر پری کی طرف دیکھا جو ہنوز خود کو خاصا مصروف ظاہر کر رہی تھی اور سب سن کر بھی وہیں تھی۔
”شاباش ہے بھئی پری! سن کر بھی تم ٹس سے مس نہیں ہوئی ،بچے کی تکلیف کا خیال ہے تمہیں اور نہ ہی اس کے کہنے کا احترام ،آج تمہاری منگنی ہوئی ہے کل کو شادی ہو گی اس طرح کرو گی تم؟“ ان کو پری کا اجتناب سرکشی محسوس ہو رہا تھا اور وہ بھرے بادلوں کی طرح اس پر گرجنے لگی تھیں۔
وہ یکلخت بدلتی صورت حال پر ہکا بکا ان کی صورت دیکھنے لگا۔
”اب کھڑی کھڑی میرا منہ کیا دیکھ رہی ہو چائے بنا کر لاؤ۔ لوبھئی حد ہو گئی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں ابھی منگنی کو اور چلی ہومن مانی کرنے کو ،میں نے یہ تربیت کی ہے تمہاری؟“ وہ شدت سے ٹیمپر لوز کر گئی تھیں۔
”چائے لاتی ہوں دادی جان!“ اس نے سعادت مندی سے کہا اور چلی گئی اس کے سرخ ہوتے چہرے کا تعاقب اس کی نگاہوں نے دور تک کیا تھا۔
”آپ نے کچھ زیادہ ہی سنا دیا ہے پارس کو۔“ وہ شرمندگی سے بولا۔
###
خزاں رسیدہ ٹنڈ منڈ درختوں نے سبز پتوں کا پیرہن اوڑھ لیا تھا ،بہار اپنے جوبن پر تھی ،نوخیز کلیوں نے خوبصورت پھولوں کا روپ دھار لیا تھا۔ خوش رنگ ،خوشنما پھولوں کی خوصورتی نگاہوں کو سکون بخش رہی تھی ،آسمان پر سرمئی بادلوں کا راج تھا۔ ٹھنڈی ہوائیں اٹھلا اٹھلا کر چل رہی تھیں۔
مثنیٰ لان میں ترتیب و خوبصورتی سے لگائے گئے پودوں و پھولوں کو دیکھ رہی تھیں ان کے چہرے پر دھیمی مسکان تھی۔ عشرت جہاں نے مسکرا کر بیٹی کے چہرے کو دیکھتے ہوئے کہا۔
”بہار آ گئی ہے مثنیٰ! پھول کھلے ہوئے کس قدر حسین لگ رہے ہیں۔“
”ممی! پھولوں کی زندگی اتنی کم کیوں ہوتی ہے؟ بالکل خوشیوں کی طرح ،ہر اچھی چیز بہت قلیل عرصے کیلئے ہوتی ہے۔
”یہ قدرت کا قانون ہے مثنیٰ! ویسے بھی انسان بہت متلون مزاج واقع ہوا ہے ہر شے سے جلد اکتا جاتا ہے جس کی طرف تیزی سے بڑھتا ہے اسے پاکر اور بھی تیزی سے اس سے دور بھاگتا ہے۔“
”ممی! قدرت کا قانون ہی بہتر ہے اگر یہ پھول مرجھائیں گے نہیں تو نئے پھول ان کی جگہ کس طرح لیں گے ،اسی طرح خوشیاں ہی خوشیاں ہر سو ہوں تو دکھوں سے گزر کر آگہی کس طرح حاصل کرے گا انسان ،ہر موسم سدانہیں ہوتا ہے تو کوئی بھی دکھ و خوشی ہمیشہ قائم نہیں رہتی ،یہی سب تو زندگی کا نام ہے ممی!“
”بے شک میری جان! میں دیکھ رہی ہوں پری کی منگنی نے آپ کو خوش کر دیا ہے بہت ایکسائیڈ رہنے لگی ہو ،یہی چاہتی تھیں آپ؟“ وہ ان کے ہر انداز میں خوشی محسوس کرتے ہوئے استفسار کرنے لگیں۔
”جی ہاں! یہی خواہش تھی میری طغرل کو پہلی نگاہ میں پہچان گئی تھی میں وہ مجھے باہمت و ارادوں کا پکا لگا تھا اور ایسے لوگ جو فیصلہ ایک بار کر لیں تو کبھی بھی اپنے فیصلے سے پیچھے نہں ہٹتے ہیں۔“
”کیا اس کے جذبے فیاض کے جذبوں سے زیادہ مضبوط و پراعتماد ہیں؟ ایک عرصے سے قبل وہ بھی تمہارے لئے اتنا ہی بے قرار و دیوانہ تھا۔“ اس کے لہجے میں گہرا تفکر و اندیشے لرزاں تھے ،انہوں نے بیٹی کا گھر بستے اور اجڑتے دیکھا تھا۔
اجڑ کر وہ ایک بار پھر بس گئی تھی لیکن بس کر بھی اجڑی اجڑی دکھائی دیتی تھی۔
”آپ یہ کیوں بھولتی ہیں ممی! ہمارے درمیان ظالم سماج حائل تھا یہاں آپ نے اور وہاں فیاض کی اماں بہنوں نے قسم کھا رکھی تھی ہمارے گھر کو برباد کرنے کی ،ہمارے تعلق کو نیست و نابود کرنے کی لیکن اب وقت بدل گیا ہے میں اپنی بیٹی کا گھر آباد رکھنے کیلئے ہر وہ قربانی دوں گی جو اس کے گھر کو آباد رکھ سکے اور طغرل بھی ماں اور بہن کے دباؤ میں آنے والا مرد نہیں ہے ،بہت اسٹرونگ ہے وہ۔
”اللہ ہماری پری کو ہمیشہ شاد و آباد رکھے ،ہماری غلطیوں کی سزا اس بچی نے بھگتی ہے خوشیوں کو ترس گئی ہے وہ۔“ اسی دم پورچ میں کار رکنے کی آواز آئی تھی اور چند لمحوں بعد بھاری قدموں کی آہٹیں ابھری تھیں کچھ لمحوں بعد وہ ان کے سامنے کھڑا تھا ،وہ دونوں ہی ازحد حیرانی سے کہتی اٹھ کھڑی ہوئیں۔

   1
0 Comments